امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عدالت عالیہ میں ایک مقدمہ پیش ہوا… دو خوبصورت نوجوان ایک نوجوان کو پکڑ کر حاضر ہوئے اور فریاد کی اے امیر المومنین اس نوجوان نے ہمارے بوڑھے باپ کو قتل کر دیا ہے
اس ظالم قاتل سے ہمارا حق دلوائے … آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا دعوہ سننے کے بعد ملزم کی طرف دیکھا اور دریافت فرمایا کہ تو اپنی صفائی میں کیا کہتا ہے؟
تو اس ملزم نے عرض کی ہاں امیر المومنین یہ جرم واقعی مجھ سے صادر ہوا ہے میں نے زور سے ایک پتھر اسے مارا تھا جس سے وہ ہلاک ہو گیا تھا۔
فاروق اعظم نے فرمایا گویا تو اپنے جرم کا اقرار کرتا ہے… ملزم … ہاں امیر المومنین ! یہ جرم واقعی مجھ سے صادر ہوا ہے ۔
آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا پھر تم پر قصاص لازم ہو گیا اور اس کے عوض تمہیں قتل کیا جائے گا… ملزم نے جواب دیا آقا مجھے آپ کے حکم اور شریعت مطہرہ کے فتوے سے انکار نہیں البتہ میں ایک گذارش کرنا چاہتا ہوں ۔ ارشاد ہوا …. بیان کرو… عرض کی تین دن کی مہلت چاہتا ہوں … تین دن بعد حاضر خدمت ہو جاؤں گا .. عظیم قائد نے کچھ دیر سر جھکا کر سوچا
غور کرنے کے بعد سر اوپر اٹھایا اور فرمایا اچھا کون ضامن ہو گا تمہارا کہ تم واقعی وعدہ کو ایفا کرنے کے لئے تیسرے دن عدالت عالیہ میں حاضر ہو کر خون کا بدلہ خون سے دو گے
عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد پر اس جوان نے پر امید نظروں سے حاضرین مجلس کا جائزہ لینے کے بعد حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پر نور چہرے پر نگاہیں گاڑتے ہوئے اشارہ کر کے کہا یہ میری ضمانت دیں گے
خلیفہ الرسول جناب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کیا آپ اس کے ضامن بننے کے لیے تیار ہیں تو حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بے شک میں ضمانت دیتا ہوں کہ یہ نو جوان تین دن بعد تکمیل قصاص کے لئے عدالت میں حاضر ہو جائے گا۔
چنانچہ جلیل القدر صحابی رسول حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ضمانت کے بعد ملزم کو چھوڑ دیا گیا
دو دن گزر گئے اور تیسرا دن آ گیا۔ جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور مشیران خلافت دربار میں جمع ہوئے … دونوں مدعی بھی آگئے … حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وہاں تشریف لے آئے اور ملزم کا بے قراری سے انتظار ہونے لگا۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا
کیونکہ ملزم ابھی تک نہیں پہنچا تھا اور وقت قریب آتا جارہا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت پریشانی ہونے لگی تھی مزید یہ کہ ایک دو مرتبہ مدعیوں نے بھی دریافت کیا مگر حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ اگر تین یوم گزر گئے اور ملزم نہ آیا تو میں اپنی ضمانت پوری کروں گا … پریشانی کی کوئی بات نہیں
جب حاضرین پریشانی کی انتہا پر پہنچ گئے اور دہلا دینے والے انجام کے تصور سے سہم گئے کہ اچانک ایک طرف سے ملزم دربار میں آ حاضر ہوا اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ چہرے پر گرد جم چکی تھی مسلسل بھاگنے سے اس کی سانس پھول گئی تھی اس نے آتے ہی سلام کیا اور عرض کی اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے بجالایا جائے
آپ رضی اللہ عنہ کے دریافت کرنے پر ملزم نے بتایا کہ میں ایک امانت والے کی امانت اس کے سپرد کرنے گیا تھا۔ واقعہ یوں ہے کہ میرا ایک چھوٹا بھائی ہے … والد فوت ہو گیا موت سے پہلے اس نے میرے پاس میرے چھوٹے بھائی کے لئے کچھ سونا رکھا تھا اور وصیت کی تھی کہ جب وہ جوان ہو جائے تو اس کے سپرد کر دینا… میں وہ سونا ایک جگہ رکھ آیا تھا جس کا مجھے ہی علم تھا اس لیئے میں وہ سونا اس کے سپرد کرنے گیا تھا۔ الحمد للہ میں نے امانت اس کے سپرد کر دی جس کی وہ تھی۔
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے ضمانت کیوں دی تھی کیا یہ آپ کا واقف تھا؟
انہوں نے کہا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہ تھا صرف یہ بات تھی کہ جب اس نے پر امید نگاہوں سے میری طرف دیکھا تو مجھے خیال آیا کہ اگر بھرے مجمع میں بھی میں اس کی ضمانت نہ دوں تو کل قیامت کے دن رب العزت کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا کہ اتنے آدمیوں میں سے کوئی بھی اس کا ضامن نہ بن سکا اس لئے میں نے اس کی ضمانت دی
حالانکہ میں اسے بالکل نہ جانتا تھا نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ یہ کہاں رہتا ہے بس اس کی ظاہری شرافت نے مجھے یقین دلا دیا تھا کہ وعدہ کا پکا ہے اور میں نے ضمانت دے دی یہ بات سن کر حاضرین محفل اشک آلود ہو گئے مدعیوں نے التجا کی کہ اے امیر المومنین ! ہم نے اپنے باپ کا خون معاف کر دیا
0 Comments